تفسير ابن كثير



سورۃ الصافات

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ[62] إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ[63] إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ[64] طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ[65] فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ[66] ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ[67] ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ[68] إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ[69] فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ[70]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا مہمانی کے طور پر یہ بہتر ہے، یا زقوم کا درخت؟ [62] بے شک ہم نے اسے ظالموں کے لیے ایک آزمائش بنایا ہے۔ [63] بے شک وہ ایسا درخت ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کی تہ میں اگتا ہے۔ [64] اس کے خوشے ایسے ہیں جیسے وہ شیطانوں کے سر ہوں۔ [65] پس بے شک وہ یقینا اس میں سے کھانے والے ہیں، پھر اس سے پیٹ بھرنے والے ہیں۔ [66] پھر بلا شبہ ان کے لیے اس پریقینا سخت گرم پانی کی آمیزش ہے۔ [67] پھر بلاشبہ ان کی واپسی یقینا اسی بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف ہو گی۔ [68] بے شک انھوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا۔ [69] تو وہ انھی کے قدموں کے نشانوں پر دوڑائے چلے جاتے ہیں۔ [70]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا سینڈھ (زقوم) کا درخت؟ [62] جسے ہم نے ﻇالموں کے لئے سخت آزمائش بنا رکھا ہے [63] بے شک وه درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے [64] جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں [65] (جہنمی) اسی درخت سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے [66] پھر اس پر گرم جلتے جلتے پانی کی ملونی ہوگی [67] پھر ان سب کا لوٹنا جہنم کی (آگ کے ڈھیرکی) طرف ہوگا [68] یقین مانو! کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو بہکا ہوا پایا [69] اور یہ انہی کے نشان قدم پر دوڑتے رہے [70]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا یہ مہمانی اچھی ہے یا تھوہر کا درخت؟ [62] ہم نے اس کو ظالموں کے لئے عذاب بنا رکھا ہے [63] وہ ایک درخت ہے کہ جہنم کے اسفل میں اُگے گا [64] اُس کے خوشے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر [65] سو وہ اسی میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے [66] پھر اس (کھانے) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کر دیا جائے گا [67] پھر ان کو دوزخ کی طرف لوٹایا جائے گا [68] انہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ ہی پایا [69] سو وہ ان ہی کے پیچھے دوڑے چلے جاتے ہیں [70]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 62، 63، 64، 65، 66، 67، 68، 69، 70،

زقوم اور طوبی ٭٭

جنت کی نعمتوں کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ ” اب لوگ خود فیصلہ کر لیں کہ وہ جگہ اور وہ نعمتیں بہتر ہیں؟ یا زقوم کا درخت جو دوزخیوں کا کھانا ہے “۔

ممکن ہے اس سے مراد خاص ایک ہی درخت ہو اور وہ تمام جہنم میں پھیلا ہوا ہو، جیسے طوبیٰ کا ایک درخت ہے جو جنت کے ایک ایک محل میں پہنچا ہوا ہے۔ اور ممکن ہے کہ مراد زقوم کے درخت کی جنس ہو اس کی تائید آیت «لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ» [56-الواقعة:52] ‏‏‏‏، سے بھی ہوتی ہے۔ ” ہم نے اسے ظالموں کے لیے فتنہ بنایا ہے “۔

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں شجرہ زقوم کا ذکر گمراہوں کے لیے فتنہ ہو گیا وہ کہنے لگے لو اور سنو آگ میں اور درخت؟ آگ تو درخت جلا دینے والی ہے۔ یہ نبی کہتے ہیں جہنم میں درخت اگے گا۔ تو اللہ نے فرمایا ہاں یہ درخت آگ ہی سے پیدا ہو گا اور اس کی غذا بھی آگ ہی ہو گی۔ ابوجہل ملعون اسی پر ہنسی اڑاتا تھا اور کہتا تھا میں تو خوب مزے سے کھجور مکھن کھاؤں گا اسی کا نام زقوم ہے۔
7509

الغرض یہ بھی ایک امتحان ہے بھلے لوگ تو اس سے ڈر گئے اور بروں نے اس کا مذاق اڑایا۔ جیسے فرمان ہے «وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا» [17-الإسراء:60] ‏‏‏‏، ” جو منظر ہم نے تجھے دکھایا تھا وہ صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے اور اسی طرح اس نامبارک درخت کا ذکر بھی۔ ہم تو انہیں دھمکا رہے ہیں مگر یہ نافرمانی میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں “۔

اس درخت کی اصل جڑ جہنم میں ہے۔ اس کے خوشے اور شاخیں بھیانک ڈراؤنی لمبی چوڑی دور دور شیطانوں کے سروں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ گو شیطان کو بھی کسی نے دیکھا نہیں لیکن اس کا نام سنتے ہی اس کی بد صورتی اور خباثت کا منظر سامنے آ جاتا ہے، یہی حال اس درخت کا ہے کہ دیکھنے اور چکھنے میں ظاہر اور باطن میں بری چیز ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سانپوں کی ایک قسم ہے جو بدترین بھیانک اور خوفناک شکل کے ہوتے ہیں۔

اور ایک قول یہ بھی ہے کہ نبات کی ایک قسم ہے جو بہت بری طرح پھیل جاتی ہے۔ لیکن یہ دونوں احتمال درست نہیں ٹھیک بات وہی ہے جسے ہم نے پہلے ذکر کیا۔ اسی بد منظر بدبو بد ذائقہ بد مزہ بد خصال تھور کو انہیں جبراً کھانا پڑے گا۔ اور ٹھونس ٹھونس کر انہیں کھلایا جائے گا کہ یہ بجائے خود ایک زبردست عذاب ہے۔

اور آیت میں ہے «لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ ۙلَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِن جُوعٍ» [88-الغاشية:7،6] ‏‏‏‏، ” ان کی خوراک وہاں صرف کانٹوں دار تھور ہو گا جو نہ انہیں فربہ کر سکے نہ بھوک مٹا سکے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آیت «اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ» [3-آل عمران:102] ‏‏‏‏ کی تلاوت کر کے فرمایا: اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے سمندروں میں پڑ جائے توروئے زمین کے تمام لوگوں کی خوراکیں خراب ہو جائیں۔ اس کا کیا حال ہو گا جس کی خوراک ہی یہی ہو گا [سنن ترمذي:2584،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏۔
7510

پھر اس زقوم کے کھانے کے ساتھ ہی انہیں اوپر سے جہنم کا کھولتا گرم پانی پلایا جائے گا۔ یا یہ مطلب کہ اس جہنمی درخت کو جہنمی پانی کے ساتھ ملا کر انہیں کھلایا پلایا جائے گا۔ اور یہ گرم پانی وہ ہو گا جو جہنمیوں کے زخموں سے لہو پیپ وغیرہ کی شکل میں نکلا ہو گا اور جو ان کی آنکھوں سے اور پوشیدہ راستوں سے نکلا ہوا ہو گا۔

حدیث میں ہے کہ جب یہ پانی ان کے سامنے لایا جائے گا۔ انہیں سخت ایذاء ہو گی بڑی کراہیت آئے گی پھر جب وہ ان کے منہ کے پاس لایا جائے گا تو اس کی بھاپ سے اس کے چہرے کی کھال جھلس کر جھڑ جائے گی اور جب اس کا گھونٹ پیٹ میں جائے گا تو ان کی آنتیں کٹ کر پاخانے کے راستے سے باہر آ جائیں گی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:52/21:] ‏‏‏‏
7511

حضرت سعید بن جیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب جہنمی بھوک کی شکایت کریں گے تو زقوم کھلایا جائے گا جس سے ان کے چہر کی کھالیں بالکل الگ ہو کر گر پڑیں گی۔ اس طرح انہیں پہچاننے والا اس میں ان کے منہ کی پوری کھال دیکھ کر پہچان سکتا ہے کہ یہ فلاں ہے۔ پھر پیاس کی شدت سے بیتاب ہو کر وہ ہائے وائے پکاریں گے تو انہیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا گرم پانی دیا جائے گا جو چہرے کے سامنے آتے ہی چہرے کے گوشت کو جھلس دے گا اور تمام گوشت گر پڑے گا اور پیٹ میں جا کر آنتوں کو کاٹ دے گا۔ اوپر سے لوہے کے ہتھوڑے مارے جائیں گے اور ایک ایک عضو بدن الگ الگ جھڑ جائے گا، بری طرح چیختے پیٹتے ہوں گے۔ فیصلہ ہوتے ہی ان کا ٹھکانا جہنم ہو جائے گا جہاں طرح طرح کے عذاب ہوتے رہیں گے۔‏‏‏‏

جیسے اور آیت میں ہے «يَطُوْفُوْنَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِيْمٍ اٰنٍ» [55-الرحمن:44] ‏‏‏‏ ” جہنم اور آگ جیسے گرم پانی کے درمیان چکر کھاتے رہیں گے “۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرأت «ثُمَّ اِنَّ مَقِیْلَهُمْ لِإِلَى الْجَحِیْمِ» ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ واللہ آدھے دن سے پہلے ہی پہلے دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے اور وہیں قیلولہ یعنی دوپہر کا آرام کریں گے۔‏‏‏‏

قرآن فرماتا ہے «اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا» [25-الفرقان:24] ‏‏‏‏ ” جنتی باعتبار جائے قیام کے بہت اچھے ہوں گے اور باعتبار آرام گاہ کے بھی بہت اچھے ہوں گے “۔
7512

الغرض قیلولے کا وقت دونوں کا اپنی اپنی جگہ ہو گا آدھے دن سے پہلے پہلے اپنی اپنی جگہ پہنچ جائیں گے۔ اس بنا پر یہاں «ثم» ‏‏‏‏ کا لفظ خبر پر خبر کے عطف کے لیے ہو گا۔

یہ اس کا بدلہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے باپ دادوں کو گمراہ پایا۔ لیکن پھر بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے۔ مجبوروں اور بیوقوفوں کی طرح ان کے پیچھے ہولئے۔
7513



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.